1 / 33

اسلامی بنکاری : اصول شریعہ و عصر حاضر کے معاملات

اسلامی بنکاری : اصول شریعہ و عصر حاضر کے معاملات. عطاء الرحمن عارف. موضوعات گفتگو. اسلام کے بارے میں اشکالات اسلام کا فلسفہ دولت اسلام میں مالی معاملات کی ہدایات نص قرانی و ربا کی اقسام مروجہ اسلامی بنکاری کی صورتیں و اشکالات عملی مسائل. خصوصیات اسلام. اشکالات. عالم گیریت

derry
Download Presentation

اسلامی بنکاری : اصول شریعہ و عصر حاضر کے معاملات

An Image/Link below is provided (as is) to download presentation Download Policy: Content on the Website is provided to you AS IS for your information and personal use and may not be sold / licensed / shared on other websites without getting consent from its author. Content is provided to you AS IS for your information and personal use only. Download presentation by click this link. While downloading, if for some reason you are not able to download a presentation, the publisher may have deleted the file from their server. During download, if you can't get a presentation, the file might be deleted by the publisher.

E N D

Presentation Transcript


  1. اسلامی بنکاری :اصول شریعہ و عصر حاضر کے معاملات عطاء الرحمن عارف

  2. موضوعات گفتگو • اسلام کے بارے میں اشکالات • اسلام کا فلسفہ دولت • اسلام میں مالی معاملات کی ہدایات • نص قرانی و ربا کی اقسام • مروجہ اسلامی بنکاری کی صورتیںواشکالات • عملی مسائل

  3. خصوصیات اسلام اشکالات • عالم گیریت • ابدیت (قیامت تک کے لئے احکامات) • جامعیت و ہمہ گیریت

  4. شبہات اشکالات ۱۔ اسلامی ہدایات کا دائرہ عمل صرف عقائد وعبادات تک محدود ہے جواب: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ انفرادی گوشوں کے ساتھ اجتماعی گوشوں کے متعلق ہدایات دیتاہے۔ امام بخاری نے عقائد وعبادات معاشی و معاشرتی مسائل سیاسی امور بین الاقوامی تعلقات حدود و تعزیرات اور دیگر گوشہ ہائے زندگی کے لئے احادیث جمع کردی ہیں تاکہ استفادہ حاصل کیا جا سکے۔ ۲۔ دور حاضر کے معاشری معاملات کا عہد رسالت میں ذکر نہیں ملتااورنہ کتب و حدیث فقہ میں ان کا تذکرہ ملتا ہےتو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں ہر مسئلہ کا حل موجودہے؟ جواب: قران و حدیث کی اصولی ہدایات اور مقاصد شریعت کی روشنی میں ہرمسئلہ کاحل موجود ہےلین دین کی ہر وہ شکل جو اسلام کے بیان کردہ اصول کے مطابق نہ ہو وہ نا جائز ہے

  5. اسلام کا فلسفہ تقسیم دولت اسلام کا فلسفہ دولت • بنیادی عوامل • معاشی اہداف کا حصول ہر انسان کے لئے • دولت و جائداد کی قدرتی تقسیم و قانون وراثت • معاشی سرگرمی قانونی، معروف، بعض دفعہ واجب (اخلاقاَ و قانوناََ لازم)

  6. اسلام کا معاشی فلسفہ اسلام کا فلسفہ دولت • ربا کا کوئی تصور موجود نہیں ہے کیونکہ اسکے نتائج: • ارتکاز دو لت • چند لوگوں کی اجارہ داری • لالچ و خود غرضی میں اضافہ • عدم مساوات • ربا کی اقسام: • ربا النسیئہ (رباالقران): ہر ایسا قرض جو نفع لے کر آئے • ربا الفضل ۔ مخصوس اجناس کا ہم جنس کے ساتھ تبادلہ(کمی یا زیادتی کے ساتھ )

  7. مالی معاملات کے بنیادی اصول مالی معاملات ۔ہدایات • رباسے پاک ہو * ربا - زیادتی زائد نمو * لین دین میں کوئی شرط لگانا • غرر سے مبرا ہو * دھوکہ دینا یا غلط امید دلانا * جس کا ظاہرمشتریکودھوکہدےاورجسکاباطنمجہول ہو *جن کی حقیقت سے بیع کرنے والے ناواقف ہوں

  8. ربا وبیع میں فرق مالی معاملات ۔ہدایات اسلام سے قبل ان دونوں کوایک تصور کیا جاتا تھا مگر قران و حدیث نے ان دونوں کا فرق بیان کیا ہے • بیع میں اجناس استعمال ہوتی ہیں ربا میں نہیں ہوتیں • اجناس کی قیمت میں کمی و اضافہ ہوتا ہے کرنسی میں نہیں ہوتا • اجناس کی قیمتمعینکی جاتی ہےکرنسیکیقیمتمعیننہیںکی جاتی

  9. پہلی ہدایت نص قرانی وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (الروم:30) تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے لئے تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ، تحریمی نوعیت کی نہیں بلکہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار ہے)

  10. دوسری ہدایت نص قرانی يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح پاجاؤ (آل عمران:130) یہ آیت 2ھجری میں نازل ہوئ ہے

  11. تیسری ہدایت نص قرانی وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا (النساء:161) اور سود جس سے منع کئے گئے تھے اسے لینے کے باعث اور لوگوں کا مال ناحق مار کھانے کے باعث اور ان میں جو کفار ہیں ہم ان کے لئے المناک عذاب مہیا کر رکھا مفسرین کے مطابق یہ آیت 4 ہجری سے قبل نازل ہوئ ہے یہاں عذاب کا ذکر ہے

  12. چوتھی ہدایت نص قرانی اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥ سود خور نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے ، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ، حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالٰی کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا ، اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے ، اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧ اللہ تعالٰی سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالٰی کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔ بیشک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم رکھتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب تعالٰی کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم

  13. چوتھی ہدایت نص قرانی يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩ اے ایمان والو اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ ، ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 280وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے (١) اگر تمہیں علم ہو۔ اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالٰی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا (١) اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے یہ آخری ہدایت اور واضح حکم فتح مکہ کے بعد سن 9ھجری میں نازل ہوا اور انتہائی سخت الفاظ میں اہل ایمان کو سود ی معاملات میں شریک ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ الله اور اس کے رسول سے جنگ کے الفاظ شدت حکم کو ظاہر کرتے ہیں

  14. ?

  15. بنکاری کا تعارف Agency Services Foreign Trade Individual Payment Mechanism Economic Development Loans & Advances Bank Deposit Generation Business (Firm) Individual Government Local Trade Government Business (Firm) Credit Creation

  16. مرابحہ مروجہ صورتیں و اشکالات جہاں فروخت کنندہ قیمت خرید اور اپنا منافع ظاہر کردے وہ مرابحہ کہلاتاہے، اس عقد میں وقت کے ساتھ قیمت میں فرق آسکتا ہے

  17. مرابحہ مروجہ صورتیں و اشکالات • جو چیز فروخت کی جارہی ہواس کاموجود ہونا ضروری ہے(Presence) • بیچنے والے کی ملکیت میں ہو (ownership) • قبضہ بائع کے پاس ہو (Physical or constructive presence) • بیع فوری طور پرنافذ العمل ہو (Spot sale) • شے کی شرعی قیمت مقرر ہو ( ہوا، مٹی، پتھر)Valuable good • حرام مقصد میں استعمال نہ ہو(Halal items) • واضح اور متعین ہو نشان دہی کردی جائے (Specific item) • بائع اس بات پر قادر ہو کہ وہ قبضہ خریدار کو کرادے گا (Deliverable goods) • قیمت متعین کی جائے (Define the price) • غیر مشروط بیع ہو (unconditional sale) • ادائیگی کی مدت کاتعین ضروری ہے (Payment schedule decided)

  18. اشکالاتمرابحہ ۔ مروجہ صورتیں و اشکالات • بنک کے پاس مطلوبہ سامان موجودنہیں ہوتا • بنک کو نقصان کاکوئی خطرہ در پیش نہیں ہوتا • مروجہ مرابحہ دو مرحلوں میں مکمل ہوتاہے • بنک معلق بیع کرتا ہے • مروجہ مرابحہ میں تمام معاملات ادھار ہوتے ہیں • مروجہ مرابحہ میں تین فریق ہوتے ہیں • نفع کاتعین سود کی بنیاد پر ہوتاہے • ایجنٹ کاکردار • ایجنٹ خود قرض دار • کاغذات میں بینک کا نمائندہ درحقیقت قرضدار

  19. مشارکہ مروجہ صورتیں و اشکالات ایسا معاہدہ جو باہم رضامندی کے ساتھ دو یا زیادہ افراد میں نفع و نقصان کی بنیاد پر کسی خاص تجارت کے مقصد سے کیا جائے

  20. مشارکہ مروجہ صورتیں و اشکالات • دو یا زیادہ افراد شامل ہوسکتے ہیں تمام شرکاء کا سرمایہ و عملی شرکت • انویسٹر کام کرسکتا منافع کی تقسیم کچھ بھی ہوسکتی ہے مگر نقصان سرمایہ کی نسبت کے مطابق ہوگا • سرمایہ کا نقصان شراکت داروں کے ذاتی مال سےپوراکریں گے • مشارکہ میں اثاثہ جات میں اضافہ سب شراکت داروں میں برابر تقسیم ہوگا • کسی تیسرے فریق کا قرضہ سرمایہ کے طور پر استعمال نہیں ہوسکتا • سرمایہ کا موجود ہونا ضروری ہے جب معاہدہ ہوا یا جب مال خریداجا رہا ہو • اگر کوئی شریک عملی طور پر شریک نہ ہونا چاہے تب بھی اسکا حصہ نہیں بڑہایا جائے گا • اگر کوئی شریک مشارکہ ختم کرنا چاہے اور دیگر شرکاءکاروبار جاری رکھنا چاہیں تووہ باہم رضامندی کے ساتھ کاروبار جاریرکھ سکتے ہیں اور اسی طرح انہیں ایک نیا معاہدہ کرنا ہوگا • باقی رہ جانے والے شرکاء ریٹائر ہونے والے شریک کا حصہ خرید سکتے ہیں

  21. مضاربہ مروجہ صورتیں و اشکالات • دو افراد شامل ہوتے ہیں: • رب المال (Investor) • مضارب (Working Partner) • رب المال کسی بھی حالت میں ورکنگ پارٹنر نہیں بنے گا، رب المال نے کام کرنے کی پیشکش کی تو معاہدہ فاسد ہوجائے گا • مضاربہ کا مال تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ استعمال نہیںہوگا • تمام نقصان رب المال کا ہوگا مضارب پر کوئی ذمہ دارینہیں ہوگیماسوائے مضارب کی بد انتظامی، غفلت، غیر ذمہ داری پر مضارب نقصان برداشت کرے گا • سرمایہ سے زیادہ نقصان کی صورت میں رب المال کی ذاتی اثاثہ جات استعمال نہیں ہوں گے • اثاثہ جات میں اضافہ صرف رب المال کا ہوگاکیونکہ مضارب صرف منافع میں حصہ دار ہوتا ہے لاگت میں نہیں

  22. مضاربہ مروجہ صورتیں و اشکالات • مضاربہ کی شرائط • رب المال وکیل بنانے کے صلاحیت رکھتا ہو ، عاقل ہو ، بالغ ہو • مضارب بھی عاقل و بالغ ہو • سرمایہ کی شرائط: • نقد کی صورت میںہو(سامان کی صورت میں سرمایہ دیا جائے تو مضاربہ نہیں ہوسکتا) • مقدار کا معلوم ہونا اور نوعیت کا معلوم ہونا ضروری ہے • مضارب پر رب المال کا قرض نہ ہوجو سرمایہ میں تصور کیا جائے • کسی تیسرے فریق کا قرضہ سرمایہ کے طور پر استعمال نہیں ہوسکتا • نفع کی شرائط: • مضارب کا حصہ فیصد کےاعتبارسے ہو • مضارب اس کے علاوہ کو ئی تنخواہ نہیں دیجائے گی سوائے اخراجات سفر کے اگر رات کسی دوسرے شہر میں گزار رہا ہو

  23. مضاربہ و مشارکہ ۔ اشکالات مروجہ صورتیں و اشکالات • اسلامی بنک اپنے ڈپازیٹر کو رب المال کہتے ہیں اور خودکو مضارب جبکہبنکوں کی انتظامیہ کا سرمایہ بھی شامل ہوتا ہے • تمام اثاثہ جات میں اضافہ رب المال کے بجائے مضارب کا ہوجاتا ہے • بنک اپنی مرضی سے منافع کا تناسب تبدیل کر دیتاہےاور صرف ویب سائٹ پر جاری کردیتا ہے • تبدیل شدہ تناسب کتنی مدت کے لئے ہوگا اس کاذکر نہیں ہوتا • بنکوں میں منافع کی تقسیم کے لئے مختلف ڈیپازٹ کے لیے مختلف اوزان تقسیم استعمال ہوتے ہیں • ڈپازیٹر(رب المال)اسبات سےلاعلمکہاسکاسرمایہ کہاں استعمال ہو رہا ہے • مضاربہ کا مال صرف تجارت میں ہی نہیں لگاتے بلکہ دوسرے منصوبوں پربھی لگاتے ہیں • منافع کی تقسیم حقیقی آمدنی پر کرنے کے بجائے مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہے

  24. مشارکہ متناقصہ مروجہ صورتیں و اشکالات • گاہک اور بنک شرکت ملک کی بنیاد پر مکان خرید لیں گے جس فریق نے جس ترتیب سے رقم لگائی ہوگی وہ اس کا اتناہی مالک ہوگا • بنک سالانہ کرایہ طے کرکے اپناحصہ گاہک کو کرایہ پر دے گا • گاہک جس قدر حصے خرید لے گا اسی حساب سے ملکیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اسی حساب سے کرایہ کی مالیت کم ہوتی چلی جائے گی • یہاں تک کہ آخر میں تمام مکان گاہک کی ملکیت ہوجائے گا

  25. مشارکہ متناقصہ ۔ اشکالات مروجہ صورتیں و اشکالات • بنک کرایہ کی مالیت طے کرتے وقت مارکیٹ ویلیو کے مطابق طے نہیں کرتا بلکہ اپنے حصے کے مطابق کرایہ طے کرتا ہے۔ • بنک اس تمام معاہدہ میں مارکیٹ میں رائج سود کی بنیاد پر کرایہ طے کرتا ہے۔ • بنک کے مطابق مکان گاہک اور بنک دونوں کی ملکیت ہے مگر اثاثہ (مکان) پر ہونے والے انتظامی اخراجات صرف گاہک برداشت کرتا ہے۔

  26. اجارہ مروجہ صورتیں و اشکالات تعریف: اجارہ ایسے معاہدے کو کہتے ہیں جس کا اختتام بیع پر ہو اقسام: • کسی کی خدمات کو کرایہ پر حاصل کرنا • کسی شے کا دوسرے شخص کو کرایہ پر دینا

  27. اجارہ مروجہ صورتیں و اشکالات بنیادی شرائط: اجارہ کا عقد بیع کی مانند ہوتا ہے البتہ بعض باتوں میں فرق ہوتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں: • اجارہ میں چیز کی بجائے منفعت پر عقد کیا جاتا ہے لہذا اس کا متعین اور مخصوص ہونا اور منفعت کا موجود ہونا ضروری ہے • اجارہ میں وقت کا تعین ضروری ہے، اور جس شے کا معاہدہ ہو وہ معین ہو • جس مقصد کے لئے چیز کرایہ پر لی جارہی ہو وہ متعین اور واضح ہو • اجارہ میں مستاجر(Lessee) اس چیز کا مالک نہیں ہوتا بلکہ موجر (Lessor)مالک رہتا ہے

  28. اجارہ ۔ بنیادیشرائط مروجہ صورتیں و اشکالات • نقد رقم،کھانے پینے کے چیزیں،تیل وغیرہ کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا • اجارہ کو مستقبل کے ساتھ معلق کرنا صحیح نہیں ہے • مستاجر کے پا س وہ شے بطور امانت ہوتی ہے • کرایہ کا آغاز میں طے کرنا ضروری ہوتا ہے جو بعد میں تبدیل نہیں ہو سکتا • مختلف کرایہ کا تعین مختلف مدت کے لئے ہوسکتا ہے • کرایہ کا آغاز اس شے کی حوالگی کے بعد شروع ہوگا

  29. اجارہ ۔ اشکالات مروجہ صورتیں و اشکالات آج کل کے معاملات شرعی اجارہ سے مختلف ہیں کیونکہ ان میں شرعی لحاظ سے اجارہ کی حقیقت موجود نہیں ہوتی:۔ • موجودہ دور میں کرایہ پر دی جانےوالی چیز موجر(Lessee) کی ملکیت اور رسک میں رہتی ہے • بنک کرایہ طے کرتے وقت اس بات کا خیال کرتا ہے کہ اتنے عرصہ میں سود کی شکل میں جو رقم ملنی تھی وہ مل جائے • گاڑی کی نقصان کی تمام تر ذمہ داری گاہگ پر ہوتی ہے • بنک گاڑی کو اپنا اثاثہ نہیں دکھاتے بلکہ جورقم واجب الوصول ہو اس کو اپنا اثاثہ ظاہر کرتے ہیں

  30. اجارہ ۔ اشکالات(۲) مروجہ صورتیں و اشکالات • جو اثاثہ (گاڑی) کرایہ دار کو استعمال کے لئے دیا جاتا ہے وہ معاہدہ کے اختتام پر استعمال کنندہ (کرایہ دار) خریدنے کا پابندہے • زر ضمانت(۱۰، ۱۵،۲۰ فی صد) ہی قیمت تصور کی جاتی ہے • بینک کےکھاتوںمیںگاڑیکرایہدارکیملکیت، زرِضمانت اثاثہ دکھایا جاتا ہے(اس مال پر کرایہ دار کو کوئی منافع نہیں دیا جاتا • کرایہ کی ادائیگی کا آغاز گاڑی کے استعمال سے قبلشروع • کرایہ کے لئے ۔گاڑی کی کل مالیت بنیاد بنتی ہے • تاخیر سے ادائیگی پر جرمانہ خیرات کی بجائے بینک کی آمدنی

  31. متفرق مسائل عملی مسائل • شرعی بینکاری کے لئے کوئی بھی نئی پراڈکٹ یا متبادل نظام کس کی ذمہ داری؟ • اسلامی بینک یا مرکزی بینک ( 13سالبعد بھی یہ معاملہ حل نہیں ہو سکا ہے) • کام کرنےوالےافرادکایقینقلبیاللهتعالیٰ کیحدودوقیودپرنہایت کمزور (ظاہری اسباب پر بھروسہ بجائے مسبب الاسباب کے) • بنک کے افرادعلماء کرام اور شریعہ ایڈوائزرز کو مس گائیڈ کرتے ہیں اور شریعہ ایڈوائزر /کنسلٹنٹ کے لئے عملی طور پر نا ممکن کہ تمام ٹرانزیکشن کا آڈٹ کرے • سیکولر قوتوں کا مطمع نظر زیادہ منافع کا حصول ہوتا ہے

  32. متفرق مسائل عملی مسائل • Banks Provide Umbrella in sunny days and take it back in rainy days • اصل فائد ہ بنک انتظامیہ و مالکان کو ہو رہا ہے بجائے کھاتہ دار و حصص یافتگان کے • روایتی سودی بینکوں کی اسلامی برانچوں کے درمیان فنڈز کی سطح پر بھی کوئی واضح تفاوت موجود نہیں • بینکوں کو تجارتی لین دین کی اجازت نہ ہونا بہت اہم معاملہ ہے جسکا ذمہ دار مرکزی بنک اور ملکی قوانین

More Related