260 likes | 533 Views
زندگی سائنس کے قانون. لیکچر نمبر 18. ا۔ خاکہ. - ادب کے جائزے _ سلائیڈ 10-2 - مصنوعی جینومک کی تنظیمی _ سلائیڈ 15-11 - این ایس اے بی بی تجاویز _ سلائیڈ 18-16 - خطرناک مرض آور کو قابو کرنا _ سلائیڈ 20-19. ب- ادب کے جائزے (ا).
E N D
زندگی سائنس کے قانون لیکچر نمبر 18
ا۔ خاکہ - ادب کے جائزے _ سلائیڈ 10-2 - مصنوعی جینومک کی تنظیمی _ سلائیڈ 15-11 - این ایس اے بی بی تجاویز _ سلائیڈ 18-16 - خطرناک مرض آور کو قابو کرنا _ سلائیڈ 20-19
ب- ادب کے جائزے (ا) _ ”میڈ لائن ڈیٹا بیس میں بائیو ڈیفنس کے اخلاقیات سے مُتعلِّق کی، یا دوھرے استعمال کے مسئلے کیلئےتلاش کی گئی۔ دس مقالے معیار کے تمام اندراج سے ملتے تھے اور انکا تفصیلی جائزہ اور تجزیہ کیا گیا۔” - دوھرے استعمال کی تحقیق خطرات کم کرنا: ایک باقاعدہ ادبی جائزہ
ج- ادب کے جائزے (ب) _ ”حیاتیاتی سائنس کے ادبی ہم رتبہ جائزہ میں ممکنہ نقصان کو کم کرنے کے لئے سب سے زیادہ عام تجویز شدہ حکمت عملی جو سائنسی تحقیق کی وجہ سے ہو سکتی ہے سائنسی برادری کے اندر خود قانون سازی تھا، اس کے بعد برھتی ہوئی سیکورٹی سائنسی برادری کے اندر، بین الاقوامی تعاون، اور آخر میں ماہرین کے لئے بائیو ڈیفنس تعلیم میں اضافہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایک مقالہ تجویز دیتا ہے کہ سیکورٹی میں کمی دوھرے استعمال کی دھشت گردی کے خطرے کو کم کردےگا بڑھتی ہوئی کھلی سائنٹیفک جانچ اور برادری کے اندر خود قانون سازی کے ذریعے۔ ۔ ۔ ۔” - ایک باقاعدہ ادبی جائزہ (جاری ہے)
د- ادب کے جائزے (ج) - ”خود قانون سازی تجویز کرنے والے مضامین کے مابین ، ایک نیچے سے اوپرکی ترکیب ، اس قانون کو کس طرح ہونے کی ضرورت کے خیالات بہت تبدیل ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ - بہت سے مقالے بھی سیکورٹی میں اضافہ تجویز کرتے ہیں یا ایک اوپر سے نیچے کی ترکیب ۔ ۔ ۔ ۔تجویز کردہ سیکورٹی میں اضافہ جسمانی حفاظتی اقدامات سے لے کر ۔ ۔ ۔ سٹاف، گریجویٹ طلبا اور علما اور کے پس منظر کی سخت جانچ اور اطلاعات اور علم تک رسائی پر پابندیاں ۔ ۔ ۔ ۔”
ھ- ادب کے جائزے (د) - ”۔ ۔ ۔ بڑھتی ہوئی خود قانون سازی اور تحفظ کو مانتے ہوئے ،بائیو ڈیفنس میں اضافے کیلئے آئندہ کی سب سے زیادہ عام تجویز بین الاقوامی تعاون تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔تجاویز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے اور اہم توجہ دی جائے واضح بین الاقوامی اتفاق رائے سے حیاتیاتی اخلاقیات کی ترکیب پر۔ ۔ ۔ ۔۔ دوسرے مضامین نے تجویز پیش کی بین الاقوامی مُعاہدوں اور ڈھانچوں کی ضرورت پر جو دوھرے استعمال کی تحقیق کی ترقی کو محدود کر سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔”
و- ادب کے جائزے (ھ) ”۔ ۔ ۔ ۔ کئی مضامین نے ایک سے زیادہ سابقہ اقدامات کا ذکر کیا اکثر ان کو ملا کر اکھٹا کیا۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ ایک، عام طور پر، آئندہ والے کی تلقید کرتا ہے، جیسا کہ بڑھتی ہوئی تعلیم بین الاقوامی تعاون میں اضافہ اور حفاظتی اقدامات میں اضافہ دونوں کی قیادت کرتی ہے۔ بڑھتے ہوئے تحفظات کو پیش کرنے کیلئے بہت سے اقدامات آگے پیچھے تجویز کئے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
ز- ادب کے جائزے (و) - ”مصنوعی حیاتیاتی سائنس ‘دوھرے استعمال‘ کی ٹیکنالوجی کا ایک نمونہ ہے، یہ اچھائی کیلئے استعمال ہو سکتا ہے لیکن کثیر نقصان کرنے کو مذموم مقاصد کے لئے بھی ۔ ۔ ۔ ۔۔ جب پولیو اسٹڈی 2002 ء میں شائع کی گی تھی، بہت شک تھا کہ یہی تکنیک چیچک کی مرکب سازی کرنے میں استعمال کی جا سکے گی ۔ ۔۔ ۔ لیکن، ٹیکنالوجی نے اتنی تیزی سے نشوونما کی کہ چیچک کی مرکب سازی اب ممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ دہشت گردوں کو جنگلی ساختہ کے وائرس تک رسائی کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔۔”
ح- ادب کے جائزے (ز) - ”یہاں ایک چھوٹا سا اختلاف ہے کہ مصنوعی حیاتیاتی سائنس کو کسی قسم کے ریگولیٹری کنٹرول کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ سوال کہ کیا کچھ صحیح ریگولیٹیڈ ہونا چاہیے، کونسا ریگولیٹری ڈھانچہ نافذ کیا جانا چاہیے اور سب کو کون سے انتظامی ڈھانچوں کی قسم کی ضرورت ہے زیر بحث معاملے رہیں گے ۔ زیادہ تر حصوں کے لئے، سائنس دانوں نے خود انتظامی کی حمایت ظاہر کی، کم از کم نیچے سے اوپر کی گورننس اور غیر واجب قانون سازی کا ڈھانچوں کی۔ ۔ ۔ ۔”
ط- ادب کے جائزے (ح) - "خود حکمرانی کے ناقدین نے ایسی تجاویز کو ناکافی کے طور پر رد کیا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی حیاتیاتی سائنس کے خطرات بہت گہرے ہیں ۔ ۔ ۔۔ اور اس تحقیق اور تحقیقدانوں کی سختی سے قانون سا زی کی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مناسب نہیں ۔ ۔ ۔(ان کیلئے) جو ہو سکتا ہے مراعات لیتے ہوں ۔ ۔ ۔۔ خود کو پابندیوں کے تابع کیلئے۔ اس کی بجائے یہ حکومتی کنٹرول کی حمایت کرتے ہیں تحقیق اور اشاعت کی اوپر سے نیچے انتظامی مشق کی۔”
ی- ادب کے جائزے (ط) - ”مصنوعی حیاتیاتی سائنسز سے لگتا ہے کہ یہ کہیں نہیں سے سامنے آئی، اور اس کے ممکنہ استعمال اور غلط استعمال نے سائنسی اور ریگولیٹری برادری کو حیرت میں ڈال دیا ۔ یہ تشریح کرتی ہے کہ نہ صرف سائنس کتنی جلدی ترقی کرتی ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ یہ کہ سائنس کی سمت کی پیش گوئی بھی بہت مشکل ہے۔ مزید اہم ، تاہم ، یہ ایک یاد دہانی ہے کہ کیسے سائنسی ترقی اخلاقی، سماجی اور قانونی بحث اس سلسلے کو چھوڑ سکتی ہے اور غیر یقینی کی طرف جیسا کہ کیسے اس پر قابو پایا جائے اور ریگولیٹ کیا جائے۔ ”
ک- مصنوعی جینومک کی تنظیمی (ا) _ تجارتی کمپنیاں جو ڈی این اے فروخت کرتی ہیں ( اولیگو نیوکلیو ٹائیڈز ، جین، یا جینومز ) صارفین کو؛ _ لیبارٹری کے مالکان ‘بنچ-ٹاپ‘ ڈی این اے مرکب ساز جس کے ساتھ صارفین اپنا ڈی این اے بنا سکتے ہیں؛ _ مصنوعی ڈی این اے کے صارفین ( استعمال کرنے والے ) خود اور ادارے جو ان کے کام کی حمایت کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔” - ”ہم مداخلتی پالیسی کے تین بڑے پوائنٹس کا تعین کرتے ہیں:
ل- مصنوعی جینومک کی تنظیمی (ب) _ ”ضرورت ہے تجارتی کمپنیاں منظور شدہ سافٹ ویئر استعمال کریں آرڈرز کی چھان بین کرنے کیلئے ۔ _ جو لوگ تجارتی کمپنیوں سے مصنوعی ڈی این اے آرڈر کرتے ہیں ان کی ایک ادارتی بائیو سیفٹی آفیسر سے لازمی تصدیق ہو کہ وہ قانونی صارفین ہیں۔ ۔ ۔ ۔" _ تجارتی کمپنی کی منظور شدہ سافٹ ویئر کے استعمال اور یہ کہ صارف کی تصدیق کی گئی ہے دونوں کی ضرورت ہے _ "تجارتی کمپنیوں کو ضرورت ہے کہ صارفین اور ان کے آرڈرز کی معلومات جمع کر کے رکھیں۔” ۔ تجارتی کمپنیوں سے متعلق حقِ انتخاب
م- مصنوعی جینومک کی تنظیمی (ج) _ ”ڈی این اے مرکب سازوں کے مالکان اپنی مشینوں کو لازمی رجسٹر کریں _ ڈی این اے مرکب سازوں کے مالکان لازمی لائسنس یافتہ ہوں _ ایک لائسنس کی ضرورت ہے جو دونوں ڈی این اے مرکب سازوں کو رکھنے اور ری ایجنٹ خریدنے اور تنصیبی سہولیات کیلئے” - ڈی این اے مرکب سازوں سے متعلق حقِ انتخاب
ن- مصنوعی جینومک کی تنظیمی (د) _ "یونیورسٹی نصاب کے حصہ کے طور پر خطرات اور بہترین تربیت تعلیم شامل کرنا _ ‘مصنوعی حیاتیات لیبارٹریز میں بائیو سیفٹی‘ کیلئے کتابچہ بنانا _ بہترین پریکٹس کے لئے تصفیہ گھر قائم کرنا _ خطرناک تجربات کو کرنے کیلئے بائیو سیفٹی ادارتی کمیٹی (آ ئی بی سی) کی جائزہ ذمہ داریوں کو وصیع کرنا” - صارفین (استعمال کرنے والے) سے متعلق حقِ انتخاب
س- مصنوعی جینومک کی تنظیمی (ھ) _ ”خطرناک تجربات کو جانچنے کیلئے بائیو سیفٹی ادارتی کمیٹی (آ ئی بی سی) کی جائزہ ذمہ داریوں کو وصیع کرنا اور قومی مشاورتی گروپ کی طرف سے نگرانی میں اضافہ کرنا _ بائیو سیفٹی ادارتی کمیٹی (آ ئی بی سی) کی جائزہ ذمہ داریوں کو وصیع کرنا اور بائیو سیفٹی ہدایات کی اطاعت بڑھانے کا نفاذ کرنا” - صارفین (استعمال کرنے والے) سے متعلق حقِ انتخاب جاری ہے
ع- این ایس اے بی بی تجاویز (ا) - ”اس رپورٹ میں، این ایس اے بی بی اصولوں کی نشاندھی کرتا ہے جو حیاتیاتی سائنس کی تحقیق کے دوھرے استعمال کی نگرانی کو سہارا دیتا ہے۔ اس طرح کی نگرانی کے اہم نکات کی فہرِست میں شامل ہیں (مثلا”، وفاقی رہنما اصول، شعور اور تعلیم، دوھرے استعمال کی قابلیت کیلئے تحقیق کی جانچ اور جائزہ ، خطرےکا تعیّن اور تنظیم سازی، اطاعت ، اور نگرانی کے طریقوں کے اثر کی مقامی (مثلا" تحقیق ادارے) اور وفاقی سطح پر میعادی جانچ) اور کردار اور ذمہ داریوں کا تجویز کرنا ۔ ۔ ۔”
ف- این ایس اے بی بی تجاویز (ب) - ”این ایس اے بی بی کے بنیادی کاموں میں دوھرے استعمال کی تحقیق کی تشویش کو جاننے کیلئے اصول تیار کرنا تھا، مجوزہ اصول یہ ہے ‘ تحقیق جو ، موجودہ افہام و تفہیم پر مبنی ہوگی معقول طور پر مہیا کرےگی علم مضوعات، یا ٹیکنالوجیز جو دوسروں سے براہ راست غلط استعمال کی جا سکتی ہوں خطرات کیلئے عوام کی صحت اور حفاظت کو ، زرعی فصلوں اور دوسرے پودوں، جانوروں، ماحول ، یا سامان کو”
ص- این ایس اے بی بی تجاویز (ج) - ”این ایس اے بی بی کے ارکان متفق ہیں کہ اصولی محقق ، قائم شدہ اصول کو استعمال کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔۔ اپنی تحقیق کی ابتدائی جانچ کرے گا اس کی دوھرے استعمال کی تحقیق کی تشویش کی قابلیت کیلئے ۔ ان منصوبوں کی ابتدائی طور پر دوھرے استعمال کی تحقیق کی تشویش کے طور پر شناخت کی جائے گی __اور این ایس اے بی بی کے ارکان پیشقدمی کریں گے کہ کچھ منصو بے ہوں گے جو صحیح طور پر دوھرے استعمال کی تشویش والے ہوں گے __ اضافی ادارتی جائزے کیلئے جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔”
ق- خطرناک مرض آَور کو قابو کرنا (ا) _ عالمی طور پر عملدرآمد ہو؛ _ متعلقہ تحقیق سے وابستہ تمام سائنسدانوں پر بلاامتیاز عملدرآمد؛ _ مالی لحاظ سے مکمل؛ _ بہترین طریقے سے انتظام شدہ؛ _ مناسب قانونی اتھارٹی کی حمایت؛ اور _ اس کی حاکمیت کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے قابل اعتماد شرائط کا ساتھ” - "زیادہ سے زیادہ مستعدی کے لئے ، نگرانی کا نظام اس طرح سے ہوگا:
ر- خطرناک مرض آَور کو قابو کرنا (ب) _ سب سے پہلے، قومی لائسنسنگ استعمال کی جائے گی متعلقہ افراد اور تحقیق سہولتوں کو جاننے کیلئے اور ان کی اطاعت کو بنیادی نمونہ کے ساتھ با ضابطَہ بنایا جائے گا ۔ ۔۔ ۔ ۔ _ اور دوسرا عنصر متعلقہ پروجیکٹ کا آغاز سے پہلے آزاد ہم رتبہ جائزہ۔ نگرانی کے نظام کے تحت تحقیق کے خواہش مند کسی بھی فرد کو ضرورت ہے کہ اپنے متعلقہ پروجیکٹ کے بارے مناسب نگرانی کے ادارے کو جائزے اور اجازت کیلئے اطلاع فراہم کرے ۔ ۔ ۔” - "نگرانی کے عمل میں دو اہم عناصر شامل ہوں گے ۔
نمونہ سوالات ا- حیاتیاتی سائنسدانوں کے مابین نگرانی کا کونسا طریقہ بہترین ثابت ہوگا? اس طریقے کے ‘مخالف اور موافق‘ کیا ہیں? ب- مصنوعی جیونومک کی قانون سازی کیلئے جرفنکل اور ساتھیوں، (2007) نے جو تجویز دی ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے? ج- دوہرے استعمال کی تحقیق کی تشویش کی یوایس این ایس اے بی بی کی کیا تعریف ہے? کیا آپ کے خیال میں یہ ایک مکمل تعریف ہے جس کی بنیاد پہ نگرانی کا نظام ہو سکتا ہے? د- این ایس اے بی بی اور میری لینڈ گروپ کے تجویز کردہ نگرانی کے نظام کا موازنہ اور مقابلہ کریں۔
References (Slide 2) Margarita Dolgitser (2007) Minimization of the Risks Posed by Dual-Use Research: A Structured Literature Review. Applied Biosafety, 12(3), pp. 175-178. Available from http://www.absa.org/abj/abj/071203dolgitser.pdf (Slide 7) Samuel,G.N., Selgelid, M. J., and Kerridge, Ian. (2009) Managing the Unimaginable: Regulatory Responses to the Challenges Posed by Synthetic Biology and Synthetic Genomics. EMBO Reports, 10(1), pp. 7-11. Available from http://www.nature.com/embor/journal/v10/n1/pdf/embor2008232.pdf (Slide 9) Miller,S., and Selgelid, M. J. (2007) Ethical and Philosophical Consideration of the Dual-use Dilemma in the Biological Sciences . Science and Engineering Ethics, 13, pp. 523 - 580. Available from http://www.springerlink.com/content/n514272v537582vv/
(Slide 11) Garfinkel, M. S., Endy, D., Epstein, G. L., and Friedman, R. M. (2007) Synthetic Genomics: Options for Governance, J.Craig Venter Institute, CSIS, MIT. Available from http://www.csis.org/component/option,com_csis_pubs/task,view/id,4119/ (Slide 16) National Science Advisory Board for Biosecurity (2007) Proposed Framework for oversight of dual use life sciences research: Strategies for Minimizing the Potential Misuse of Research Information, Washington, D.C., Available from http://oba.od.nih.gov/biosecurity/pdf/Framework%20for%20transmittal%200807_Sept07.pdf (Slide 19) Steinbruner, J., Harris, E. D., Gallagher, N., and Okutani, S. M. (2007) Controlling Dangerous Pathogens: A Prototype Protective Oversight System, CISS, University of Maryland. Available from http://www.cissm.umd.edu/papers/files/pathogens_project_monograph.pdf